تحریر: نذر حافی
حوزہ نیوز ایجنسی | تاریخ میں پیچ و خم بہت زیادہ ہیں۔ تاریخ ویسے بھی رٹنے اور مطالعہ کرنے کے بجائے گُتھیاں سُلجھانے کا نام ہے۔ تاریخی گُتھیاں سُلجھانے کو تجزیہ و تحلیل کہتے ہیں۔ اس تجزیہ و تحلیل کا تعلق اسلام و کفر،توحید و شرک، عیسائی و یہودی ، سُنی و شیعہ یا مشرقی و مغربی سے نہیں۔ تجزیہ و تحلیل اگر آزادانہ و منصفانہ ہو تو ایک کافر بھی اُسی نتیجے تک پہنچ سکتا ہے جس پر کوئی مسلمان پہنچے اور ایک مغربی باشندہ بھی اُن حقائق کو پا سکتا ہے جو کسی مشرقی سکالر نے اخذ کئے ہوں۔
آئیے مسلمان ہونے کے ناطے کچھ دیر کیلئے یہ تحقیق کرتے ہیں کہ کیا ہماری اپنی تاریخ ، ہمارے لئے بس ایک مقدّس کتاب بن گئی ہے یا پھر ہم اس سے کوئی درس اور عبرت لینے کیلئے بھی کوشاں ہیں!؟۔ مسلمانوں کے ہاں یہ طے شُدہ ہے کہ قیامت تک اللہ کی آخری کتاب قرآن مجید اور اللہ کے آخری پیغمبر حضرت محمد رسول اللہﷺ ہیں۔ تجزیہ و تحلیل کرنے والے جانتے ہیں کہ پیغمبرِ اسلام پر ایمان لانے والے سب کے سب ان پڑھ، جاہل اور پسماندہ نہیں تھے۔ بہت سارے سابقہ کتابوں کے عالم اور دیگر ادیان کے بارے تحقیق و جستجو کرنے والے ایسے لوگ بھی مسلمان ہوئے تھے جو یہ بھی جانتے تھےکہ یہ پیغمبر ایک عالمی دین لایا ہے اور اس کا دین ایک عالمی حکومت بھی قائم کرے گا۔ چنانچہ ایک محقق کیلئے مقامِ فکر ہے کہ اگر ایک عالمی دین لانے والے اور ایک عالمی حکومت قائم کرنے والے اللہ کے آخری نبی ؐ نے غُسلِ جنابت کا طریقہ، بیت الخلاء کے احکام، کھانے کے آداب، اور مسواک کرنے کے فوائد تک بتائے ہیں تو کیا یہ نہیں بتایا کہ میرے بعد میرا جانشین و خلیفہ کون ہو گا؟
کیا نبی اکرم ؐ اس اُمّت کو اسی طرح لاوارث چھوڑ کر چلے گئے تھے کہ کوئی بھی شخص چاہے کسی بھی طریقے سے اِس اُمّت پر مسلط ہو جائے ؟ کیا رسولِ خدا ؐ جیسے دانا رہبر کو اپنے بعد مسئلہ خلافت میں اختلاف کے خطرے کا ادراک نہیں تھا؟ اور اگر ادراک تھا تو آپ نے اس کے سدِّباب کیلئے کیا اقدامات فرمائے؟
آج ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے ہاں کے عام سے اور چھوٹے موٹے لیڈر اور دانشمند بھی اگلے پچاس یا سو سال کے بعد پیش آنے والے خطرات سے لوگوں کو آگاہ کر تے ہیں اور اُن سے نمٹنے کیلئے مختلف نکات بھی بیان کرتے ہیں۔ جب ہمارے یہ عام سے لیڈر اتنی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں تو نعوذباللہ ! کیا عالمی نبوّت کا حامل، نبی اکرم ؐ جیسا عظیم رہبر، ان خطرات کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتا تھا کہ میرے بعد میری اُمت مسئلہ خلافت پر انتشار کا شکار ہو جائے گی، میری قائم کردہ اسلامی ریاست کی بساط لپیٹ دی جائے گی اور میری آل و خاندان کو قتل کر دیا جائے گا؟ اگرا یک عظیم اور دانا رہبر ہونے کے ناطے ہمارے پیغمبرؐ کو اِن خطرات کا ادراک تھا تو اِن کی روک تھام کیلئے آپ نے کیا اقدامات کئے؟
اگر پیغمبرِ اسلام ؐکو اپنے بعد مذکورہ خطرے کی سوجھ بوجھ تھی تو کیا آپ نے گمراہی سے بچنے کیلئے اُمّت کو یہ کہا تھا کہ میری زندگی میں، ابھی ابھی، میرے لئے کاغذ قلم لاو تاکہ تم میرے بعد کبھی بھی گمراہ نہ ہو" لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا" یا پھر یہ کہا تھا کہ گمراہی اور اختلافات سے بچنے کیلئے میرے بعد سقیفہ بنی ساعدہ چلے جانا ؟
ختمِ نبوّت پر ایمان رکھنے والوں کیلئے " لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا" کی حدیث بہت اہم ہے۔ یہ اتنی اہم حدیث ہے کہ اسے مسلمانوں کی مستند ترین کتاب صحیح بخاری نے چھ مرتبہ اورمُسلم شریف نے تین مرتبہ دہرایا ہے۔ اس اہمیّت کی اہم وجہ یہ ہے کہ اس میں تاجدارِ ختمِ نبوّت کی زبان سے اُمّت کو یہ ضمانت دی جا رہی ہے کہ میری وصیّت کے بعد پھر تم ہر گِز گمراہ نہیں ہو گئے۔ اب عقل و منطق یہی کہتی ہے کہ مسلمانوں نے تاجدارِ ختمِ نبوّت کو قلم دوات دینے کے بجائے جو بھی دوسرا راستہ اختیار کیا ہے وہ عقیدہ ختمِ نبوّت سے علیحدگی کا راستہ ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں ہیں کہ پیغمبر ؐکو قلم دوات نہ دینے کا راستہ سیدھا سقیفہ بنی ساعدہ تک جاتا ہے۔ جب ایک محقق سقیفہ بنی ساعدہ کے بارے میں تحقیق کرتا ہے تو اس کے دماغ میں مزید سوالات اُبھرنے لگتے ہیں جیسے:
پیغمبرِ اسلام کے بعد اگر سقیفہ بنی ساعدہ والا طریقہ کار درست تھا تو پھر کیوں خلفائے راشدینؓ نے یکے بعد دیگر اس طریقہ کار کومسترد کیا اور اپنے بعد والے خلفا کے انتخاب کیلئے وہی طریقہ اختیار نہیں کیا؟ اسی طرح کیا کتابِ خدا یا نبی اکرمؐ نےخلیفۃ الرسول ؐکیلئےمکّی، قریشی یا عمر میں بڑا ہونے کی قید معیّن کی تھی؟
محققین ہی تصدیق کریں گے کہ پیغمبر ؐنے اپنی زندگی میں گمراہی سے بچنے کیلئے مسلمانوں کو دو راستے بتائے۔ ایک یہ حدیث ہے کہ میرے بعد قرآن اور میرے اہلِ بیت سے تمسّک رکھنا تو کبھی گمراہ نہیں ہو گئے[ یہ حدیث بھی سُنّی و شیعہ دونوں کے ہاں موجود ہے] اور دوسرے یہ کہا کہ میرے لئے کاغذ قلم لاؤ تو کبھی گمراہ نہیں ہو گئے۔ اچھا مسلمانوں نے نبی ؐ کو کاغذ قلم تو نہیں دیا تو پھر کیا سقیفہ بنی ساعدہ میں جاتے ہوئے انہوں نے اہلِ بیتِ رسول ؐ کو اعتماد میں لیا تھا؟ جواب ہر گز نہیں۔
اب میرے لئے یہ مسئلہ ناقابلِ فہم ہے کہ اگر حقائق یوں ہی ہیں تو پھر یہ سب صدرِ اسلام کے مسلمانوں کے ہوتے ہوئے کیسے ممکن ہو گیا!؟۔ میرے نزدیک یہ ایک انہونی ہے اور شاید تاریخ انہی انہونیوں کا نام ہے۔ کچھ اقوام اپنی انہونیوں کو مقدّس بنا لیتی ہیں اور کچھ انہی انہونیوں سے عبرت حاصل کرتی ہیں۔
نوٹ: حوزہ نیوز پر شائع ہونے والی تمام نگارشات قلم کاروں کی ذاتی آراء پر مبنی ہیں حوزہ نیوز اور اس کی پالیسی کا کالم نگار کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔